[Lights of India] " " Nasihat " "

 


بسم الله الرحمن الرحيم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

            
 Subject: نصیحت آموز سبق
 
 
 
 
 
مال تمہاری ملکیت
 مگر
 وسائل معاشرے کی ملکیت ہوا کرتے
ہیں
 
 
جرمنی ایک صنعتی ملک ہے جہاں دُنیا کی بہترین مصنوعات اور بڑے بڑے برانڈز  مثلاً مرسیڈیز بینز، بی ایم ڈبلیو اور سیمنز پروڈکٹس بنتے ہیں۔

 ایٹمی ری ایکٹر میں استعمال ہونے والے پمپ تو  محض اس ملک کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بنتے ہیں۔

اس طرح کے ترقی یافتہ ملک کے بارے  میں کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ وہاں  لوگ  کس طرح عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہونگے،

 کم از کم میرا خیال تو  اُس وقت یہی تھا جب میں پہلی بار اپنی تعلیم کے سلسلے میں سعودیہ سے جرمنی  جا رہا تھا۔
 
میں جس وقت ہمبرگ پہنچا تو وہاں پہلے سے موجود  میرے دوست میرے استقبال کیلئے ایک ریسٹورنٹ میں دعوت کا پروگرام بنا چکے تھے۔

 جس وقت ہم ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے
  اس وقت وہاں گاہک نا ہونے کے برابر اور اکثر میزیں خالی نظر آ رہی تھیں۔

 
 ہمیں جو میز دی گئی اس کے اطراف میں ایک میز پر  نوجوان میاں بیوی کھانا کھانے میں مشغول تھے ،

  اُن کے سامنے صرف ایک ڈش میں کھانا رکھا  ہوا تھا
جس کو وہ اپنی اپنی پلیٹ میں ڈال کر کھا رہے

 اور شاید دونوں کے سامنے ایک ایک گلاس جوس بھی رکھا ہوا نظر آ رہا تھا

 جس سے میں نے یہی اندازہ لگایا کہ بیچاروں کا رومانوی ماحول میں بیٹھ کر کھانا کھانے کوتو  دل چاہ رہا  ہوگا

 مگر جیب زیادہ اجازت نا دیتی ہو گی۔

 ریسٹورنٹ میں ان کے علاوہ کچھ عمر رسیدہ خواتین نظر آ رہی تھیں۔

ہم سب کی بھوک اپنے عروج پر تھی
  اور اسی بھوک کا حساب لگاتے ہوئے


 میرے دوستوں نے کھانے کا فراخدلی سے آرڈر لکھوایا۔

 ریسٹورنٹ میں گاہکوں کے نا ہونے کی وجہ سے ہمارا کھانے لگنے میں زیادہ وقت  نا  لگا
 
اور ہم نے بھی کھانے میں خیر سے کوئی خاص دیر نا لگائی۔  
پیسے ادا کر کے جب ہم جانے کیلئے اُٹھے تو ہماری پلیٹوں میں کم از کم ایک تہائی کھانا ابھی بھی بچا ہوا تھا۔

 باہر جانے کیلئے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے  ریسٹورنٹ میں موجود اُن بڑھیاؤں نے ہمیں آوازیں دینا شروع کر دیں۔
 ہم نے مڑ کر دیکھا تو وہ ساری اپنی جگہ کھڑی ہو کر زور زور سے باتیں کر رہی تھیں


 اور ہم نے یہی اندازہ لگایا کہ اُنکا موضوع ہمارا ضرورت سے زیادہ کھانا طلب کرنا اور اس طرح  بچا کر ضائع کرتے ہوئے جانا تھا۔

میرے دوست نے جواباً اُنہیں کہا کہ ہم نے جو کچھ آرڈر کیا تھا اُس کے پیسے ادا کر دیئے ہیں

 اور تمہاری اس پریشانی اور ایسے معاملے میں جس کا تم سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا میں دخل اندازی کرنا ہماری سمجھ سے باہر ہے۔

 ایک عورت  یہ بات سُنتے ہی  ٹیلیفون کی طرف لپکی اور کسی کو فوراً وہاں آنے کو کہا۔

 ایسی صورتحال میں ہمارا وہاں سے جانا یا کھسک جانا ہمارے لیئے مزید مسائل کھڑے کر سکتا تھا اس لئے ہم وہیں ٹھہرے رہے۔
 
کچھ ہی دیر میں وہاں ایک باوردی شخص آیا جس نے اپنا تعارف ہمیں  سوشل سیکیوریٹی  محکمہ کے ایک افسر کی حیثیت سے کرایا۔

 صورتحال کو دیکھ اور سن کر اُس نے ہم پر پچاس مارک کا جرما نہ عائد کر۔

 اس دوران  ہم چپ چاپ کھڑے رہے۔
  میرے دوست نے آفیسر سے معذرت کرتے ہوئے پچاس مارک  جرمانہ ادا کیا


 اور اس نے ایک رسید بنا کر میرے دوست کو تھما دی۔
آفیسر نے جرمانہ وصول کرنے کے بعد شدید لہجے میں ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ :
 
آئندہ جب بھی کھانا طلب کرو تو اُتنا ہی منگواؤ جتنا  تم کھا سکتے ہو۔

 تمہارے پیسے تمہاری ملکیت  ضرور ہیں
مگر وسائل معاشرے کی امانت ہیں۔


 اس دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے بھی ہیں
 جو غذائی کمی کا شکار ہیں۔


تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ تم کھانے پینے کی اشیاء کو اس طرح  ضائع کرتے پھرو۔
 
بے عزتی کے احساس اور شرمساری سے ہمارے چہرے سرخ ہورہے تھے۔
 
 ہمارے پاس اُس آفیسر کی بات کو سننے اور اس سے اتفاق کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

 ذہنی طور پر ہر اُس بات کے قائل ہو چکے تھے جو اُس نے  ہمیں کہی تھیں۔

  مگر کیا کریں ہم لوگ ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جو وسائل کے معاملے میں  تو خود کفیل نہیں ہے

 مگر ہماری عادتیں کچھ اس طرح کی بن گئی ہیں کہ ہمارے پاس کوئی مہمان آ جائے تو  اپنا منہ رکھنے کیلئے یا اپنی جھوٹی  عزت یا خود ساختہ اور فرسودہ روایات   کی پاسداری خاطر دستر خوان پر کھانے کا ڈھیر لگا دیں گے۔

 نتیجتاً بہت سا  ایسا کھانا کوڑے کے ڈھیر کی نظر ہوجاتا ہے
 جس کے حصول کیلیئے کئی  دوسرے ترس رہے ہوتے ہیں۔


سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے
 کہ ہم  اپنی  ان بری عادتوں کو تبدیل کریں
 اور نعمتوں کا اس طرح  ضیاع اور انکا اس طرح سے  کفران  نا کریں۔
 
ریسٹورنٹ سے باہر نکل کر  میرے دوست نے سامنے کی ایک دکان سے  جرمانے کی رسید کی فوٹو کاپیاں بنوا کر ہم سب کو اس واقعہ کی یادگار کے طور پر دیں تاکہ ہم گھر جا کر اسے نمایاں طور پر کہیں آویزاں کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ آئندہ کبھی بھی اس طرح کا اسراف نہیں کریں گے۔
 
جی ہاں ! آپکا  مال یقیناً آپکی مِلکیت ہے مگر وسائل سارے معاشرے کیلئے ہیں۔

==================
Aapki Duaoun Talib
Mrs Rubina Yasmeen
==================



__._,_.___
Recent Activity:
Fardeen:- Risky_ade86@yahoo.com
FACEBOOK :- Fardeen khan.    
                
 
           To Join This Group:
http://groups.yahoo.com/group/lightsofindia
http://groups.yahoo.com/group/lightsofindia
http://groups.yahoo.com/group/lightsofindia
http://groups.yahoo.com/group/lightsofindia
http://groups.yahoo.com/group/lightsofindia
********************************************************
Post message: lightsofindia@yahoogroups.com
Subscribe:    lightsofindia-subscribe@yahoogroups.com
Unsubscribe:  lightsofindia-unsubscribe@yahoogroups.com
List owner:   lightsofindia-owner@yahoogroups.com
********************************************************
Regards,
FARDEEN & Rukshar.
Moderators, Owner
Lights of India Group

This message serves informational purposes only and should not be viewed as an irrevocable indenture between anyone. If you have erroneously received this message, please delete it immediately and notify the sender at Lightsofindia-Owner@yahoogroups.com. The recipient acknowledges that any views expressed in this message are those of the Individual sender and no binding nature of the message shall be implied or assumed unless the sender does so expressly with due authority of The LOI Group. LOI reserves the right to repeal, change, amend, modify, add, or withdraw the contents herein without notice or obligation.

---------------------------------------------------
Note:- Lights Of India is Not Responsible For Any Claims.
---------------------------------------------------



MARKETPLACE

Stay on top of your group activity without leaving the page you're on - Get the Yahoo! Toolbar now.

.

__,_._,___